چھٹیاں ضائع نہیں کار آمد بنائیے


📘 چھٹیوں کو ضائع نہیں، کارآمد بنائیے!

✍️ تحریر: ابو طیب لقمان

ہر سال جب موسم گرما کی تعطیلات آتی ہیں تو بچوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے، اور والدین کی تشویش بڑھ جاتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے: والدین کو اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ دو سے تین ماہ محض کھیل کود، سستی، سوشل میڈیا اور غیر مفید مشاغل میں ضائع نہ ہو جائیں۔

لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے صرف تعلیمی لحاظ سے نہیں بلکہ ذہنی، اخلاقی اور شخصی اعتبار سے بھی مضبوط ہوں، تو ہمیں ان چھٹیوں کو محض “آرام کا وقت” سمجھنے کے بجائے ایک تربیتی موقع کے طور پر دیکھنا ہوگا۔

🔹 مطالعے کی عادت:

بچوں کو روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ مطالعہ کا پابند بنائیں۔ یہ مطالعہ صرف نصابی نہیں، بلکہ اخلاقی، تاریخی یا سیرتِ نبوی ﷺ سے متعلق ہو تو بہتر ہے۔ یاد رکھیے! اچھی کتابیں اچھے انسان بناتی ہیں۔

🔹 ٹیکنالوجی کا توازن:

موبائل، ٹی وی یا گیمز سے بچوں کو مکمل روکنا تو ممکن نہیں، لیکن ایک واضح وقت مقرر کرنا اور اس پر سختی سے عمل کروانا نہایت ضروری ہے۔ بصورت دیگر یہ آلات بچوں کے ذہن، آنکھوں اور اخلاق پر مہلک اثر ڈال سکتے ہیں۔

🔹 نیا ہنر، نئی سوچ:

کوئی نیا ہنر سیکھنا جیسے تیر اندازی، گھریلو کام، خطاطی، پروگرامنگ یا زبان — بچوں کو نہ صرف مصروف رکھتا ہے بلکہ ان کی شخصیت میں اعتماد اور مہارت پیدا کرتا ہے۔

🔹 جسمانی سرگرمیاں:

روزانہ کھیل کود (sports) یا سیر و ورزش نہ صرف جسم کو توانا رکھتی ہے بلکہ ذہن کو بھی تازہ کرتی ہے۔ جو بچے جسمانی طور پر فعال ہوتے ہیں، وہ تعلیمی طور پر بھی بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔

🔹 دین و اخلاق کی تربیت:

یہ سب سے اہم اور طویل المدتی نفع کا کام ہے۔ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت اور ترجمہ، نبی کریم ﷺ کی سیرت کے واقعات، دعائیں، اور اسلامی آداب — یہ سب وہ خزانے ہیں جو بچے کی پوری زندگی کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔

🔹 نظم و ضبط:

چھٹیوں میں دیر سے سونا، بے وقت کھانا، اور بے مقصد وقت گزارنا بچوں کو بے ڈھنگا بنا دیتا ہے۔ بہتر ہے کہ سونے جاگنے، کھانے پینے، اور سیکھنے کا ایک باقاعدہ نظام طے کریں اور سب بچے اس کے پابند رہیں۔


🎯 خلاصہ:

چھٹیاں دراصل شخصیت سازی کا وقت ہیں۔ یہ وہ دن ہیں جن میں بچے وہ کچھ سیکھ سکتے ہیں جو انہیں سال بھر کی اسکولنگ بھی نہیں سکھاتی۔ لہٰذا آئیے! اس بار ہم ان چھٹیوں کو صرف تفریح نہیں، بلکہ تربیت، شعور، اور کردار سازی کا ذریعہ بنائیں۔

ہمیں نسلِ نو کو صرف کتابوں سے نہیں بلکہ علم، حکمت، نظم، اور دینی شعور سے آراستہ کرنا ہے — تبھی یہ معاشرہ سنورے گا، اور تبھی ہمارا کل روشن ہوگا۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.