✍🏻 تحریر: ابو طیب لقمان
بلوچستان کے حالیہ اندوہناک واقعے نے دل دہلا دیا۔
محض اس بناء پر، کہ لڑکی نے اپنی پسند سے شادی کیوں کی؟
اس “غیرت” کے جنون میں معصوم جانیں چھین لی گئیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے پسند کی شادی کو جرم قرار دیا ہے؟
کیا شریعت نے ولی کے فیصلے کے ساتھ لڑکی کی رضا مندی کو غیر اہم قرار دیا ہے؟
نہیں!
حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
«لا تُنكَحُ الأيمُ حتَّى تُستَأمَرَ»
’’بیوہ عورت کا نکاح اس کے حکم کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘
(صحیح البخاري: 5136)
اور کنواری کے بارے میں فرمایا:
«والبكر تُستأذن»
’’اور کنواری سے اجازت لی جائے۔‘‘
عورت کی رضا مندی کو نظر انداز کرنا خود شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کا نکاح فسخ کر دیا تھا جس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کر دیا گیا تھا۔
(سنن ابو داود: 2096)
یہی سنت ہے، یہی شریعت ہے!
جس دن ہم نے لڑکی کی رضامندی کے اس شرعی اصول کو بھلا دیا…
اسی دن ہمارے معاشرے میں غیرت کے نام پر خون بہنے لگا!
پسند کی شادی بذاتِ خود کوئی جرم نہیں —
البتہ اگر اس میں شریعت کے ضوابط اور حدود پامال ہوں تو وہ گناہ بن جاتا ہے۔
لیکن صرف اس وجہ سے کسی کو واجب القتل سمجھ لینا؟
یہ نہ دین ہے، نہ غیرت… یہ تو سراسر جہالت اور وحشت ہے۔
اور یہی وہ المیہ ہے، جسے امتِ مسلمہ بھگت رہی ہے۔
اگر خاندان اور معاشرہ — ولی اور عزیز —
شروع سے رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کو زندگی کا حصہ بناتے
اور نکاح کے فیصلوں میں لڑکی کی جائز پسند کو اہمیت دیتے…
تو شاید آج ہمیں لاشوں کے اس بازار کا سامنا نہ کرنا پڑتا!
بگاڑ وہاں سے شروع ہوا جہاں ہم نے دین کے اصول چھوڑ دیے،
اور اپنی جھوٹی انا اور نام نہاد غیرت کو مذہب سے زیادہ اہم سمجھ لیا۔
آئیے!
ہم سب مل کر
اس سنت کو زندہ کریں —
لڑکی کی رضامندی اور پسند کو شرعی دائرے میں ماننے کی سنت!
شاید اسی میں ہمارے معاشرے کی اصلاح اور امن کا راستہ پوشیدہ ہو۔
اللهم اهدنا سواء السبيل