ظلم کی شب طویل ہے… کیا سحر ہوگی؟
تحریر: ابو طیب لقمان
دنیا کے نقشے پر ایک بار پھر وہی دردناک منظر دہرایا جا رہا ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمانوں کا مقدر بنتا چلا آ رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ کی سرزمین، جو انبیاء کی جائے قدم اور مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے، آج ایک بار پھر ظلم، جبر اور لاپروائی کا مرکز بن چکی ہے۔ بے گناہ بچے، عورتیں، بزرگ، مائیں، معصوم چہروں والے وہ فلسطینی جو صدیوں سے اپنے وجود کا مقدمہ لڑ رہے ہیں… آج وہ پھر خاک و خون میں تڑپ رہے ہیں۔
رات کی تاریکی میں اسرائیلی بمباری، صہیونی فوجیوں کے حملے، اور عالمی برادری کی خاموشی… یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے، اور ہم بس دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پوسٹیں، چند غم و غصے بھرے کمنٹس، کچھ مظاہرے، اور پھر زندگی حسبِ معمول رواں دواں۔ سوال یہ ہے کہ کیا امت مسلمہ صرف ایک مجمع ہے جو ہمدردی تو رکھتا ہے، مگر عملی اقدام سے کوسوں دور ہے؟
ظلم کی یہ رات طویل ضرور ہے، مگر اندھیری رات کا مقدر ہمیشہ سحر ہوتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ سحر کب آئے گی؟ کیا اس وقت جب آخری بچہ بھی شہید ہو جائے؟ یا اس لمحے جب ہم واقعی اپنی ذمہ داریوں کا شعور پالیں گے؟
قرآن کہتا ہے:
“وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ”
(سورہ ابراہیم: 42)
“اور ہرگز نہ سمجھو کہ اللہ ان ظالموں کے عمل سے غافل ہے…”
اللہ کا نظام خاموش نہیں۔ وہ دیکھ رہا ہے، اور مظلوموں کی آہیں عرش تک جا رہی ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اللہ کا عذاب صرف ظالموں پر نہیں آتا، بلکہ وہ قومیں بھی لپیٹ میں آتی ہیں جو خاموش تماشائی بن جاتی ہیں۔
کیا ہم نے سوچا کہ ہمارے بچوں کے آرام دہ بستر، ہماری رات کی نیند، ہمارے پرتعیش افطار اور پرسکون زندگی… یہ سب اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب دنیا کے کسی کونے میں مسلمان پر ظلم ہو رہا ہو، اور ہم بس “افسوس” کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔
اب وقت ہے جاگنے کا، صرف پوسٹ کرنے کا نہیں، بلکہ شعور پیدا کرنے کا، نسل نو کو بیدار کرنے کا، امت کو ایک مرکز پر لانے کا، اور اپنی بساط کے مطابق ہر ممکن عملی قدم اٹھانے کا۔ ورنہ تاریخ ہمیں “غافل امت” کہہ کر یاد کرے گی۔
🔥
ReplyDelete