تحریر: ابو طیب لقمان
28 مئی 1998ء… یہ تاریخ محض ایک دن کا نام نہیں، بلکہ ایک عہدِ خودی کی گونج ہے، جب پوری دنیا نے پہاڑوں کے سینے چیرتی ہوئی آواز سنی:
“اللہ اکبر!”
یہ نہ صرف پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا دن تھا بلکہ امت مسلمہ کے اس حصے کے عزم و حمیت کی شہادت تھی، جو صدیاں غلامی اور عالمی دباؤ کے بوجھ تلے پسنے کے بعد اٹھ کھڑا ہوا۔ یومِ تکبیر، صرف ایک سائنس کا کارنامہ نہیں، یہ درحقیقت عقیدے، غیرت اور دینی حمیت کی وہ چنگاری ہے جو قوموں کو جگا دیا کرتی ہے۔
🌍 عالمی منظرنامہ میں ایک صدا
جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور خطے میں بالادستی کا خواب دیکھنے لگا، تو اسلامی جمہوریہ پاکستان نے دنیا کو یاد دلایا کہ
“ہماری امن پسندی، ہماری کمزوری نہیں!
یہ دن قومی سلامتی کا دن ہے، لیکن اس سے کہیں بڑھ کر یہ دن امت کے اجتماعی شعور، قربانی اور وحدت کا مظہر ہے۔ دشمن کے دانت کھٹے ہوئے، اور مسلم دنیا کو ایک نئی روح ملی۔
📿 تکبیر کا مطلب صرف نعرہ نہیں!
“اللہ اکبر” کا مطلب صرف دھماکہ کرنا نہیں، بلکہ یہ اعلان ہے کہ
اللہ سب سے بڑا ہے… طاقتوں سے بڑا، سپر پاورز سے بڑا، میزائلوں اور مفادات سے بڑا!
ہم نے جب یہ نعرہ لگایا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم تنہا نہیں۔ ہماری طاقت صرف یورینیم اور سینٹری فیوجز میں نہیں، بلکہ اللہ پر ایمان، شہداء کی قربانیوں اور قوم کی دعا میں ہے۔
📚 یاد رکھو! یہ صرف ہتھیار کا نہیں، کردار کا دن ہے
یومِ تکبیر کی اصل روح تبھی زندہ رہے گی جب:
• ہم اپنی تعلیم کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کریں،
• اسلامی اقدار کو اپنی قومی شناخت بنائیں،
• اور اپنے نوجوانوں کو غلامانہ ذہنیت سے نکال کر خوددار مسلم بنائیں۔
جس قوم نے پہاڑوں کو ہلا دیا، وہ اگر سستی، فرقہ واریت، بدعنوانی اور مادہ پرستی میں ڈوب جائے تو یہ تاریخ سے غداری ہے۔
🕌 تکبیر سے تعمیر کی طرف
آئیے، اس یومِ تکبیر پر صرف جذباتی تقاریر اور جھنڈے لہرا کر نہ رہ جائیں، بلکہ:
• اپنے تعلیمی اداروں کو علمی ایٹمی قوتوں میں بدلیں،
• اپنی مساجد کو وحدت اور بیداری کا مرکز بنائیں،
• اور اپنے نوجوانوں کو کردار کے میدان میں ایٹم بم بنائیں۔
✍️ اختتامیہ
یومِ تکبیر کا پیغام یہی ہے کہ مسلمان جب “اللہ اکبر” کہتا ہے، تو زمین کی ہر طاقت اس کے سامنے حقیر ہو جاتی ہے — بشرطیکہ وہ یہ نعرہ دل سے، علم سے، کردار سے اور قربانی سے بلند کرے۔