رشتہ .....انا سے آگے کیا نام ہے

رشتہ… انا سے آگے کا نام

 تحریر :ابو طیب لقمان 

 آج اتوار ہے اور صبح جب سو کر جاگا تو دل تھوڑا غم زدہ تھا اور دل میں بہت سی باتیں منڈلا رہیں تھیں سوچا شادی شدہ زندگی کے متعلق تو  کچھ سطریں لکھ دوں   تو  کچھ درج ذیل ٹوٹا پھوٹا لکھ ڈالا ۔
شادی محض دو افراد کا ساتھ نہیں، بلکہ دو سوچوں، دو طبیعتوں اور دو دنیاؤں کا ملاپ ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جس میں محبت بھی ہے، آزمائش بھی؛ قربت بھی ہے، فاصلہ بھی؛ دل بھی جڑتے ہیں، اور کبھی ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ شادی سب سے پہلے برداشت اور سمجھوتے کا نام ہے — اور یہ دونوں خوبیان صرف عورت سے نہیں، مرد سے بھی مانگتی ہیں۔
اکثر کہا جاتا ہے:
“مرد ہونا کافی نہیں، انسان ہونا سیکھو”
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عورت ہونا کافی ہے؟ کیا عورت نے بھی “انسان” ہونا سیکھا ہے؟
کیا مرد صرف اس لیے قصوروار ہے کہ وہ حاکم ہے؟
کیا عورت کو صرف اس لیے معصوم مان لیا جائے کہ وہ جذباتی ہے؟
رشتے کبھی یک طرفہ قربانیوں پر نہیں چلتے، اور نہ ہی محض جذبات سے نبھائے جا سکتے ہیں۔ اگر مرد کو قوامیت کا دعویٰ ہے، تو عورت کو بھی نرمی، احترام اور وفاداری کی لاج رکھنی ہوگی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ”
(النساء: 34)
ترجمہ: “مرد عورتوں کے نگہبان ہیں…”
مگر قوام ہونا صرف حکمرانی کا نہیں، بلکہ سب سے پہلے ذمہ داری کا اعلان ہے۔
شوہر جب تھکے ہوئے گھر آئے تو بیوی کو اس کے چہرے کی جھریاں نظر آئیں،
اور بیوی جب روتے ہوئے سو جائے تو شوہر کو اس کے دل کی ٹوٹ پھوٹ سنائی دے —
یہی وہ رشتہ ہے جو مضبوط ہوتا ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ آج کی ازدواجی زندگی میں نہ مرد قوام نظر آتا ہے، نہ عورت رفیق۔
مرد اپنی تھکن کو انا میں لپیٹ لیتا ہے،
عورت اپنی بےچینی کو شکایت میں بدل لیتی ہے۔
نتیجہ؟
دو جسم ساتھ ہوتے ہیں، مگر روحیں الگ الگ راہوں پر چل رہی ہوتی ہیں۔
ہم مرد اکثر عورت کی زبان، اس کے انداز، اس کے سوالات پر تیز ہو جاتے ہیں۔
لیکن کیا عورت کبھی سوچتی ہے کہ مرد جب ساری دنیا کی ٹھوکریں کھا کر آتا ہے، تو اس کا دل صرف دو لفظ چاہتا ہے:
“میں تمہارے ساتھ ہوں!”
بیوی بھی اکثر شکایت کرتی ہے کہ شوہر سنجیدہ نہیں، وقت نہیں دیتا، بے اعتنائی برتتا ہے —
لیکن کیا کبھی بیوی نے بھی اپنے شوہر کی عزت کو اسی شدت سے بچایا ہے جیسے وہ چاہتی ہے کہ اس کی خود عزتی ہو؟
ہم نے ازدواجی زندگی کو مقابلہ بنا دیا ہے —
کہ کون جیتے گا؟ کون ثابت کرے گا کہ وہ سچا ہے؟
حالانکہ شادی سچ جیتنے کا نہیں، ساتھ جیتنے کا نام ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“خَیرُکم خیرُکم لأهله”
“تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہو۔”
(ترمذی)
مگر کیا یہ حدیث عورت کے لیے بھی اتنی ہی اہم نہیں؟
کیا وہ اپنے شوہر کے ساتھ حسنِ سلوک، احترام، شکرگزاری، اور وفاداری کا نمونہ بن سکی؟
اصل المیہ یہ ہے کہ ہم سب اپنی ذمہ داری کو کم، اور دوسرے کی کوتاہی کو زیادہ دیکھتے ہیں۔
شوہر چاہتا ہے کہ بیوی کبھی تھکے نہیں،
بیوی چاہتی ہے کہ شوہر کبھی غصہ نہ کرے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں انسان ہیں،
کبھی ٹوٹ جاتے ہیں، کبھی رو پڑتے ہیں۔
رشتے اس وقت بنتے ہیں جب ہم جذبات سے زیادہ احساس کریں،
دلیل سے زیادہ درگزر کریں،
اور برتری سے زیادہ برابری کو مانیں۔
میرا ایک دوست کہتا ہے:
“بیوی اگر ذرا زبان دراز ہو جائے تو؟”
میں نے کہا:
“کیا تم خود ہمیشہ خاموش رہتے ہو؟ کیا اس نے تمہارے ہر غلط لفظ پر درگزر نہیں کیا؟”
اور ایک بہن نے پوچھا:
“شوہر میری بات نہیں سنتا، کیا اس کا یہی حق ہے؟”
میں نے کہا:
“کیا تم نے اس کی خاموشی کو کبھی سنا؟ اس کے چپ ہونے میں چھپی آواز کو محسوس کیا؟”
شادی نہ مرد کی برتری ہے، نہ عورت کی مظلومیت۔
یہ تو دو کمزور انسانوں کا مضبوط ساتھ ہے۔
یہ وہ بندھن ہے جہاں دلیل نہیں، دل سے بات کرنی پڑتی ہے۔
آج اگر مرد صرف مرد بنے بیٹھا ہے،
تو عورت بھی صرف عورت بن کر جینے لگی ہے۔
کوئی “شوہر” ہے، کوئی “بیوی”،
لیکن دونوں میں “ساتھی” کوئی نہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ گھر جنت بنے،
تو لازم ہے کہ مرد اپنے قوام ہونے کو حاکمیت نہیں، خدمت سمجھے۔
اور عورت اپنی نرمی کو کمزوری نہیں، طاقت سمجھے۔
تب ہی جا کر رشتہ پنپتا ہے،
ورنہ صرف وجود ساتھ ہوتے ہیں، دل بہت پہلے تنہا ہو چکے ہوتے ہیں۔
تو آئیے!
آج سے ہم سب صرف “مرد” یا “عورت” بننے سے پہلے انسان بننے کا عہد کریں —
بے شک، رشتہ وہیں سے شروع ہوگا۔۔۔!!!

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.