✍️ ابو طیب لقمان
عیدالاضحی کی خوشیاں جب ہر گلی کوچے میں بکھرتی ہیں، اور جب قربانی کے جانوروں کے گلے میں رنگین پھولوں کی مالا اور تصویروں میں فخر کی مسکراہٹ ہوتی ہے، تب ایک اور چہرہ بھی ہوتا ہے — سادہ، خاموش، مطمئن مگر اندر سے زخمی۔
وہ چہرہ کس کا ہے؟
ایک امام مسجد کا،
ایک مدرس کا،
ایک استاذ کا…
جو سال بھر ہمیں سنتِ ابراہیمی سکھاتا ہے،
قربانی کے فلسفے پر خطبے دیتا ہے،
تقویٰ، اخلاص، اور ایثار کے پیغامات سناتا ہے…
لیکن خود قربانی کا جانور خریدنے سے محروم ہوتا ہے۔
صرف قائل… یا قائل و فاعل؟
ہم سنتے آئے ہیں کہ قربانی ایک عبادت ہے، شعائرِ اسلام میں سے ہے، حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی عظیم یادگار ہے۔
لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا:
جس شخص نے ہمیں یہ شعائر سکھائے، وہ خود ان پر عمل کیوں نہیں کر پاتا؟
اس کا ایمان کمزور نہیں،
اس کی نیت ناقص نہیں،
بس… اس کا معاش کمزور ہے۔
خاموش قربانی
جب ہم جانور کی گردن پر چھری پھیرتے ہیں،
وہ اپنے دل کی خواہش پر چھری پھیر رہا ہوتا ہے۔
جب ہم گوشت بانٹتے ہیں،
وہ اپنے بچوں کی طرف نظریں چرا رہا ہوتا ہے کہ کہیں وہ فرمائش نہ کر دیں۔
جب ہم فیس بک پر تصویریں لگاتے ہیں،
وہ اپنے دل میں دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے کہ “یا اللہ! میرے شاگردوں، مقتدیوں، اہلِ ایمان کی قربانی قبول فرما۔”
یہ قربانی نہیں؟
بلکہ یہ اصل قربانی ہے — جس کا اجر شاید میدانِ محشر میں بہت بھاری ہو۔
امت کی بے نیازی… یا لاعلمی؟
بدقسمتی سے امت کا ایک بڑا طبقہ صرف فتوے، خطبے، اور تعلیم کے وقت اپنے علماء و اساتذہ کو یاد رکھتا ہے۔
لیکن عید کے ان دنوں میں…
جب ہم سب کی خوشیوں کا مرکز گوشت، ضیافت اور شان و شوکت ہوتی ہے —
تب وہ خادمِ دین اکثر گمنام اور سنتِ ابراہیمی کا صرف قائل بن کر رہ جاتا ہے۔
ایک سوال… آپ سے
کیا واقعی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دین کی خدمت کرنے والے افراد کو دنیا کی ضرورت نہیں؟
کیا جس نے ہمیں تقویٰ سکھایا، ہم اس کی غربت سے بے خبر رہیں؟
کیا یہ سنتِ ابراہیمی کی حقیقی روح ہے؟
آئیں… امسال کچھ مختلف کریں
اس سال، صرف بکرے کا انتخاب نہ کریں…
کسی مدرس کا خیال بھی کریں،
کسی امام کے بچوں کی خوشی بھی خریدیں،
کیونکہ…
وہ سنتِ ابراہیمی کا قائل تو ہے…
مگر آپ کی مدد کے بغیر فاعل نہیں بناسکا۔