جب اطاعت، ظاہری تراش خراش سے جُڑ جائے*


تحریر :ابو طیب لقمان

عبادت ہمیشہ صرف سجدہ، تسبیح یا روزہ ہی نہیں ہوتی…
کبھی کبھی عبادت خاموشی سے، بدن کے ظاہری حصوں میں بھی سانس لیتی ہے — جیسے ناخن اور بال۔
ذوالحجہ کا چاند ابھی نظر نہیں آیا،
لیکن سنتِ نبویﷺ ہمیں پہلے ہی ایک خاموش پیغام دے چکی ہے:
“جب ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور کسی کا قربانی کا ارادہ ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔”
📚 [صحیح مسلم: 1977]
بظاہر یہ ایک سادہ ہدایت ہے، مگر اس کی روح اطاعت کے اس مقام سے جُڑی ہے جہاں انسان چھوٹے چھوٹے اعمال میں بھی اللہ کی رضا تلاش کرتا ہے۔
یہ محض صفائی یا طبی معاملہ نہیں — یہ وفاداری کا اظہار ہے۔
یہ عمل دل سے پوچھنے کا لمحہ ہے:
“جب ایک جان قربان کرنے کا ارادہ ہے… تو کیا میں خود کو تھوڑا سا روک نہیں سکتا؟”
یہ اطاعت شعاری کی تربیت ہے۔
نفس پر قابو پانے کی مشق ہے۔
قربانی کے مفہوم کو جسم کی سطح پر محسوس کرنے کا موقع ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک عام رواج یہ بھی ہے کہ عیدالاضحی سے ایک دن پہلے لوگ پارلرز کا رخ کرتے ہیں، بال کٹواتے ہیں، داڑھی کی تراش خراش کرواتے ہیں — گویا عید کی تیاری کر رہے ہوں۔
حالانکہ اگر وہ صاحبِ قربانی ہیں، تو یہ تیاری سنت کے بالکل برعکس ہے۔
اصل تیاری تو یہ تھی کہ چاند نظر آتے ہی ظاہری صفائی مکمل ہو جاتی، پھر قربانی تک خالص نیت اور عاجزی کے ساتھ انتظار کیا جاتا۔
یاد رکھیے، عید کی اصل زینت اطاعت ہے، نہ کہ آخری لمحے کی وضع قطع۔
لہٰذا اگر آپ نے قربانی کا ارادہ کر رکھا ہے،
تو منگل، 27 مئی کی شام سے پہلے ناخن اور بال کاٹ لیجیے۔
پھر جب چاند نظر آئے، تو دل میں ایک اطمینان ہو کہ
“میں تیار ہوں — اطاعت کے اس چھوٹے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے۔”
یہ وہ سنت ہے جو شاید زبان سے ادا نہ ہو،
مگر عمل کی زبان میں ایک بلند نعرہ بن کر اللہ سے کہتی ہے:
“یا رب! میں حاضر ہوں… صرف جان نہیں، اپنی روزمرہ عادات بھی تیرے حکم پر قربان!

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.