✨ کبھی کبھی دوری بھی محبت ہوتی ہے
تحریر: ابو طیب لقمان
انسان فطرتاً تعلقات کا محتاج ہے۔ خونی رشتے ہوں یا جذباتی وابستگیاں، روح کو تسکین دینے کے لیے کسی کا قرب درکار ہوتا ہے۔ لیکن یہ قرب ہمیشہ راحت کا باعث ہو، ضروری نہیں۔ کبھی کبھی یہی قرب گھٹن بن جاتا ہے۔ ایسی گھٹن جو دل کو زخمی کرتی ہے، نفس کو تھکاتی ہے، اور وجود کو بوجھل کر دیتی ہے۔
جب کسی تعلق میں قربت تکلیف دینے لگے، جب بات بات پر دل دکھنے لگے، اور جب خاموشی چیخوں سے زیادہ شور کرنے لگے، تو ایسی صورت میں دوری اختیار کرنا کوئی گناہ نہیں، نہ بے وفائی۔ یہ نفرت نہیں ہوتی… بلکہ ایک “وقفہ” ہوتا ہے۔
ایک ایسا وقفہ جو دل کو بچاتا ہے، سانس لینے کا موقع دیتا ہے، اور خود کو بکھرنے سے بچا کر دوبارہ جوڑنے کی مہلت فراہم کرتا ہے۔
چراغ کی مثال لیجیے… وہ روشنی بھی دیتا ہے، سکون بھی، مگر جب کوئی پروانہ حد سے زیادہ قریب آتا ہے تو جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔
سمندر بھی سیراب کرتا ہے، مگر جب کوئی اس کی گہرائیوں میں حد سے زیادہ اترتا ہے تو ڈبو دیتا ہے۔
یہی حال انسانی تعلقات کا ہے۔ ہر رشتہ چاہے جتنا بھی قیمتی کیوں نہ ہو، اس میں ایک “مسافتِ امن” ضروری ہے۔
ایسا فاصلہ جو حدوں کا شعور دے، ایک دوسرے کی انفرادیت کا احترام سکھائے، اور محبت کو گھٹن بننے سے بچائے۔ یہ فاصلہ رشتے کو ختم نہیں کرتا، بلکہ اسے باقی رکھتا ہے۔
قربت کی لذت اپنی جگہ، مگر ہر تعلق میں تھوڑا سا فاصلہ، تھوڑا سا توقف، تھوڑا سا سکون… یہ رشتے کو بوجھ نہیں بننے دیتا۔
یہ وہ فاصلہ ہے جو تعلق کی بقاء کی ضمانت ہے، محبت کی حرمت کی حفاظت ہے، اور دلوں کی سانسوں کو زندہ رکھنے کا وسیلہ ہے۔
تو اگر کبھی آپ نے خود کو کسی تعلق سے پیچھے ہٹتے پایا، یا کسی نے آپ سے تھوڑا فاصلہ اختیار کیا، تو اسے فوراً بے وفائی نہ سمجھیں۔
ممکن ہے یہ وقفہ… محبت کو محفوظ رکھنے کا ایک شعوری عمل ہو